0

تاریخ میں پہ پہلی دفعہ کسی غیر مسلم وفد کامسجد نبوی ﷺ کا دورہ

سوشل میڈیا پر اس وقت ایک نئی بحث جاری ہے اور چند تصاویر اور ویڈیوز گردش کر رہی ہیں کہ جس میں ہندوستانی وفدمسجد نبوی ﷺ کے باہر تصویریں بناتا نظر آرہا ہے۔جس پر مسلمانوں میں کی طرف سے ایک شدید ردعمل سامنے آرہا ہے کہ آخرسعودی حکومت نے ان غیر مسلموں کو وہاں تک آنے کیسے دیا؟
بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی یونین وزیر سمرتی ایرانی اور وزیر مملکت برائے امور خارجہ و پارلیمانی امور وی مرلی دھرن کی قیادت میں مدینہ منورہ کا دورہ کیا ہے
یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ جس میں غیر مسلم وفد کا پہلی بار مسجد نبوی ﷺ کا دورہ تھا۔ بھارتی وزیر اقلیت اسمرتی ایرانی کی خصوصی درخواست پر انہیں ان مقدس مقامات کے دورے کی اجازت ملی تھی ،اس بھارتی وفد میں شامل خواتین نے اور مرد حضرات نے روائیتی بھارتی لباس زیب تن کر رکھا تھا۔
سمرتی ایرانی جو کہ ماضی میں مشہور ڈرامہ ’’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ کی مرکزی کردارا ور مختلف ڈراموں کے اندر اداکاری بھی کر چکی ہیں لیکن اس وقت یہ ہندوستان کی حکومت میں ایک وزیر ہیں
سعودی عرب میں سمرتی ایرانی کی ملاقات سعودی عرب کے وزیر حج و عمرہ سے ملاقات ہوئی جہاں انہوں نے انڈیا اور سعودی عرب کا اس سال حج پروگرام کو فائنل کیا جس کے تحت اس سال حج کے لیے 175025 عازمین حج بھارت سے سعودیہ جا سکیں گے ہے
اس کے بعد اس وفد نے وہاں کے مقدس مقامات کا دورہ کیا اوراوہ مسجد نبوی ، مسجد قبا اور جبل ِ اُحد پر گئے اور اس کی تصاویر اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر شیئر کی ۔
تاریخ میں پہ پہلی دفعہ کسی غیر مسلم وفد کامسجد نبوی ﷺ کا دورہ
انہوںنے اسلام کے متعلق اسلامک کلچر کے متعلق بہت اچھی باتیں اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ کے اوپر بھی لکھیں ۔سمعتی ایرانی کا انڈیا میں عام طور پر مسلمانوں کے لیے یہ رویہ نہیں دیکھا جاتا تھا اکثر یہ بڑی سخت باتیں بھی مسلمانوں کے متعلق کر جاتی تھی لیکن یہاں پر انہوں نے مسلمانوں کی طرف سے اخلاق دیکھ کر ان کے لیے بھلی بات کہنے پہ مجبور ہوئی ۔یقینا جب لوگ اسلام کے قریب ہوں مسلمانوں کے مقدس مقامات کے قریب ہوں تو ان کے دل کی دنیا بھی بدلے گی وہ کم از کم مسلمانوں کے لیے جو شدت پسندانہ جذبے رکھتے ہیں وہ ختم ہوں گے
لیکن باب جو شور شرابہ سوشل میڈیا پر برپا ہے اس کے متعلق بات کر لیتے ہیں ۔تو اس کے متعلق کہ قران اور حدیث میں مشرکین کو مسجد سے روکنے کا جو حکم ہے اس کے اندر مختلف مقامات پر امام شافعی رحمت اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مشرک کو یعنی غیر مسلم کو مسجد الحرام میں داخل نہ ہونے دیا جائے یعنی صرف مسجد الحرام کا ذکر کر رہے ہیں پورے حدود حرم کا ذکر نہیں جبکہ امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ یہ کہتے ہیں کہ نہیں مشرک کو با امر مجبوری یا ضرورت کے تحت مسجد الحرام میں داخل ہونے کی بھی اجازت ہے یعنی امام شافعی بھی صرف مسجد الحرام کی حد تک کہتے ہیں کہ یہاں مشرک کو داخل نہ ہونے دیا جائے اور مسجد نبوی کے متعلق یا مدینے کی حدود کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یہاں پہ غیر مسلم ا ٓسکتے ہیں لیکن امام ابو حنیفہ رحمت اللہ علیہ تو کہتے ہیں کہ کسی کو بھی کہاں بھی آنے سے منع نہیں کیا جا سکتا اور وہ اس پہ اپنے دلائل بھی دیتے ہیں تو یہ بڑا اختلاف موجود ہے لیکن بھارتی وزیر نے جو تصاویر بنائی یہ مسجد نبوی کے دروازے سے کافی باہر ہیں ہوٹل ایریاز میں ہیں۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ تھوڑا سا فراخ دلی کا مظاہرہ کریں وہاں تک جہاں تک اسلام میں اجازت دے رکھی ہے،اس حوالہ سے یہاں پر ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ایک واقعہ کا ذکر بھی کر لیا جائے ثمامہ مدینہ منورہ کے قریب راستے میں ہی تھا کہ مجاہدین اسلام کے ایک گروپ جو مدینہ کی نگرانی پر مامور تھا اس نے ثمامہ کو گرفتار کرلیا۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہے وہ اسے پکڑ کر مدینہ لے آئے۔ ثمامہ بن اثال ایک نڈر جرنیل تھا، تاجور تھا، گورنر تھا، پکڑ کر لایا گیا، مسجد نبوی میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ رسول پاک ؐ تشریف لے گئے۔دیکھا، خوبصورت چہرہ، لمبا قد، توانا جسم، بھرا ہوا سینہ، اکڑی ہوئی گردن، اٹھی ہوئی نگاہیں، تمکنت، شان و شکوہ، سطوت، شہرت ہے۔ حکمرانی کے جتنے عیب ہیں سارے پائے جاتے ہیں۔ رسول اکرم آگے بڑھے، کہا ثمامہ! کیسے ہو؟ ثمامہ بولا:گرفتار کرکے پوچھتے ہو کیسا ہوں۔ رسول پاک ؐنے فرمایا:کوئی تکلیف پہنچی ؟ کہتا ہے:تمہاری تکلیف کی کوئی پروا، نہ تمہاری راحت کا کوئی خدشہ، جو جی چاہے کرلو۔ رسول پاک ؐنے فرمایا: بڑا تیز مزاج آدمی ہے۔ اپنے صحابہ کو دیکھا، پوچھا، اس کو دکھ تو نہیں پہنچایا؟ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ؐ گرفتار ہی کیا ہے دکھ کوئی نہیں پہنچایا۔ پیکر حسن و جمال نے فرمایا:ثمامہ ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو تو سہی ، ثمامہ کہتا ہے:کیا نظر اٹھا کر دیکھنے کی بات کرتے ہو، میں نہیں دیکھتا، مجھ کو مارا جائے گا تو میرے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ لیکن رحمۃ للعالمینﷺ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، فرمایا، جتنا غصہ ہے جی چاہے نکال لو، لیکن ہمارا چہرہ تو دیکھ لو۔ ثمامہ نے جواب دیا:اس نے مدینہ والے کو دیکھا ہی نہیں تھا، اس نے کہا، تمہارا چہرہ کیا دیکھوں۔ لوگو! یہ ہے وہ پیغمبر رحمۃ للعالمین جس کے نقش قدم پر تم کو چلنا ہے۔ جب بے آسرا تھا تب بھی شکن نہیں ڈالی، آج تاجدار تھا لیکن پیشانی پر شکن نہیں ڈالتا ہے۔ فرمایا: کوئی بات نہیں، میری بستی کی طرف تو نگاہ ڈالو۔ اس نے کہا: میں نے روم و یونان ، ایران و مصر کی بستیاں دیکھیں ۔ اس بستی کو کیا دیکھوں؟ رحمۃ للعالمینؐ نے کہا کوئی بات نہیں، دوسرے دن آئے پھر وہی جواب، تیسرے دن پاک پیغمبرؐ آئے فرمایا:ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے، ذرا دیکھ تو لو، کہتا ہے:نہیں دیکھتا، اب آسمان گوش بر آواز تھے، زمین سہمی پڑی تھی، دیکھیں! آج اس نبی رحمت کی زبان سے کیا حکم صادر ہوتا ہے، اس گستاخ کو کیا سزا ملتی ہے۔ لوگوں نے دیکھا، کائنات نے دیکھا، آسمان طیبہ نے دیکھا، مسجد نبوی نے دیکھا، اس ستون نے دیکھا جس کے ساتھ ثمامہ بندھا ہوا تھا، اب حکم صادر ہوگا اس کی گردن اڑ جائے گی مگر ہمیشہ مسکرانے والے پاک پیغمبرﷺ مسکرائے، فرمایا :جائو! ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے چلے جائو، ہم نے اسے رہا کردیا ہے، ہم تجھے کچھ نہیں کہتے تو بڑا آدمی ہے، بڑے ملک کا حکمراں ہے، تو نہیں دیکھتا ہم تجھے کیا کہیں گے، جائو اور اپنے صحابہ کرام کو جن کی تلواریں ثمامہ کی گردن کاٹنے کیلئے بیتاب تھیں، ان کو کہا، بڑا آدمی ہے عزت کے ساتھ لے جاکر اس کو مدینہ سے رخصت کردو۔ انہوں نے چھوڑا، پلٹتے ہوئے اسکے دل میں خیال آیا، بڑے حکمراں بھی دیکھے، محکوم بھی دیکھے، جرنیل بھی دیکھے ، کرنیل بھی دیکھے، صدر بھی دیکھے کمانڈر بھی دیکھے، اتنے حوصلے والا تو کبھی نہ دیکھا، اس کے چہرے کو دیکھوں ہے کیسا ـ’’بس اک نگاہ پر ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا‘‘ پھر دیکھتا ہے، دیکھ کر سرپٹ بھاگا، اور پھر آگے میں نہیں کہتا ثمامہ سے سنیں! وہ کیا کہتا ہے، کہا، قدم آگے کی طرف بھاگ رہے تھے دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا، دو میل بھاگتا چلا گیا اور جتنی رفتار سے گیا تھا اس سے دگنی رفتار سے واپس پلٹ آیا، وہ ماہ ِتمام ننگی زمین پہ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اپنے یاروں کیساتھ ننگی زمین پر بیٹھا ہوا تھا، صحن مسجد پر ننگے فرشوں پر آیا، نبی کرم نے نگاہ ڈالی سامنے ثمامہ کھڑا ہے، فرمایا ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا پھر آگئے؟ کہا، مجھ کو اپنا بنا کر چھوڑ دیا، کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے۔ چھوڑا تب تھا جب آپ کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، اب آپ کا چہرہ دیکھ لیا، اب…. زندگی بھر کیلئے آپؐ کا غلام بن گیا ہوں۔
ثمامہ نے پھر رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام ؓ کے سامنے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔
اس یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے اخلاق سے دوسروں کو متاثر کرنا ہو گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں