پنجاب پولیس نے مزاحیہ فنکار طاہر انجم پر حملہ کرنیوالی خاتون انیلہ کو گرفتار کر لیا۔ یہ واقعہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر پاکستان تحریک انصاف کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں پیش آیا۔ طاہر انجم پنجاب اسمبلی کے باہر سے گزر رہے تھے جب پی ٹی آئی کی خاتون ورکرز نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ خاتون نے طاہر انجم کو تھپڑ مارے اور ان کے کپڑے پھاڑ دیے تھے۔ یہ تشدد کا واقعہ بہت زیادہ تنقید کا باعث بنا اور سوشل میڈیا پر بھی اس کی بھرپور مذمت کی گئی۔
خاتون ورکر انیلہ نے الزام لگایا تھا کہ طاہر انجم نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کو دہشتگرد کہا تھا جس پر وہ غصے میں آکر ان پر حملہ آور ہو گئی۔ طاہر انجم کے مطابق یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور وہ صرف اسمبلی کے باہر سے گزر رہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔ انیلہ کی گرفتاری کے بعد پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ واقعہ کے اصل حقائق سامنے آ سکیں۔ یہ واقعہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات اور تشدد کی نئی مثال ہے۔
یہ واقعہ ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے رویے کس قدر بڑھ چکے ہیں۔ سیاسی اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرنا نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرتی اقدار کے بھی منافی ہے۔ طاہر انجم پر حملے کے اس واقعے نے ایک بار پھر ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہمیں اپنے اختلافات کو برداشت کرنے اور بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خاتون کی گرفتاری کے بعد امید ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جا سکے گی۔
اس واقعے نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے؟ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات اور تشدد کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمیں برداشت اور رواداری کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ اختلافات کو پرامن طریقے سے کیسے حل کیا جائے اور کسی بھی مسئلے کا حل تشدد میں تلاش نہ کیا جائے۔ اس واقعے نے ایک بار پھر ہمیں یہ یاد دلایا ہے کہ معاشرتی امن اور ہم آہنگی کے لیے صبر و تحمل اور بردباری ضروری ہیں۔