اگلے سال کے مالی بجٹ میں پنجاب کے سرکاری سکولوں کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے تعلیمی نظام میں بہتری کی امیدیں معدوم ہو گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق سکولوں میں نئے کمرے بنانے اور عمارتوں کی تعمیر و مرمت کے لیے خاطر خواہ بجٹ مختص نہ کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ حکومت کی ترجیحات میں سکولوں کی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کرنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ترقیاتی بجٹ کا زیادہ حصہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور پیما اتھارٹی کو دیا جانے کا امکان ہے، جس سے سرکاری سکولوں کی حالت زار مزید بگڑ سکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں سکولوں کی خطرناک عمارتوں کی تعمیر و مرمت کے لیے صرف دو سے تین ارب روپے خرچ کرنے کی تجویز شامل ہے، جبکہ اگلے مالی سال کے لیے سکول ایجوکیشن کو 50 ارب روپے تک ملنے کا امکان ہے۔ اس کمزور بجٹ کی وجہ سے سرکاری سکولوں کی تعلیمی سہولیات میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آ سکے گی۔ بجٹ کی اس غیر منصفانہ تقسیم کے باعث سرکاری سکولوں کے طلباء اور اساتذہ کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری جانب پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو تیس ارب روپے اور پیما اتھارٹی کو پانچ ارب روپے سے زیادہ ملنے کی توقع ہے۔ یہ تنظیمیں تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہیں، مگر سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے بھی بجٹ میں مناسب حصہ مختص کرنا ضروری ہے۔ سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور جدید تعلیمی معیار کے حصول کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت سرکاری سکولوں کی ضروریات کو نظر انداز کرتی رہی تو مستقبل میں تعلیمی معیار میں مزید کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پنجاب کے سرکاری سکولوں کی بہتری کے لیے حکومت کو ترجیحات پر غور کرنا چاہیے اور تعلیمی بجٹ میں مناسب اضافہ کرنا چاہیے۔ سرکاری سکولوں کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے نئے کمرے بنانا، عمارتوں کی تعمیر و مرمت کرنا اور جدید تعلیمی سہولیات فراہم کرنا ضروری ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتی تو تعلیمی نظام میں بہتری کی امیدیں معدوم ہو سکتی ہیں اور سرکاری سکولوں کے طلباء کا مستقبل مزید غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت سرکاری سکولوں کی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور بجٹ میں مناسب حصہ مختص کرے تاکہ تعلیمی معیار کو بلند کیا جا سکے۔